19ستمبر(ایس او نیوز ایجنسی) لوک سبھا انتخابات یا اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی مسلم سیاسی پارٹیاں منظرعام پرآجاتی ہیں، لیکن انتخابات کےعین وقت پروہ منظرعام سےغائب ہوجاتی ہیں یا پھران کا اپنا سیاسی مطلب حل ہوجاتا ہے۔ اورجو پارٹیاں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں ایک دو پارٹیوں کو چھوڑکرکوئی بھی اپنے وجود کو ثابت کرنے میں ناکام ثابت ہوتی ہیں۔
لوک سبھا انتخابات 2019 سے قبل ایک بار پھرسیاسی پارٹیاں منظرعام پرآنے لگی ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلانے کے کاموں میں مصروف ہوگئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت اترپردیش میں تقریباً ایک درجن سیاسی پارٹیاں سیاسی اتحاد پرزوردینے لگی ہیں۔
دوسری جانب مسلم سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں جس طرح کے حالات پیدا ہورہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا سیاسی طورپرمتحد ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی قیادت کوئی عالم دین کرتا ہے، تو مسلمانوں کے کسی مسئلے سے متعلق بات ہونے پر یہ مسلک اورفرقے میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم جماعتوں کے رہنما خود ایک پلیٹ فارم پرجمع نہیں ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کو لے کراضطراب کی کیفیت دیکھنے کوملتی ہے۔
کیرالہ کی انڈین یونین مسلم لیگ نے لوک سبھا اوراسمبلی میں اپنی طاقت دکھا دی ہے، لیکن وہ بھی کیرالہ تک محدود ہے۔ اسدالدین اویسی کی قیادت والی آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین اورمشرقی اترپردیش کے میں پیس پارٹی کو اگرچھوڑ دیں تو پھرکوئی بھی مسلم سیاسی پارٹی مسلمانوں کے درمیان اپنا وجود قائم رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بھی آسام میں مضبوط ہے۔ مولانا بدرالدین اجمل خود ممبرپارلیمنٹ ہیں اورآسام اسمبلی میں ان کے 13 ممبران اسمبلی ہیں۔ اگر راشٹریہ علما کونسل کی بات کریں تو دارالحکومت دہلی کے بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے بعد وجود میں آنے والی یہ سیاسی جماعت کسی بھی محاذ پرمقبول نہیں ہوسکی ہے۔ اب ایسے حالات میں نئی نئی سیاسی جماعتیں منظرپرآنے لگی ہیں اور وہ الیکشن میں "مسلمانوں کا سودا" کرنے کےلئے پلیٹ فارم تیارکررہی ہیں۔